شادی اور اس کے مسائل


 شادی اور اس کے مسائل اوران کا حل 

شادی کی بنیاد دو چیزیں ہیں یعنی شادی کرنے کے دو مقصد یا دو وجوہات ہوتی ہیں- اور دونو کا ذکر قرآن پاک میں موجود ہے- 

1 : نسل انسانی کی بقا ( اولاد پیدا کرنا )     2 : لطف و سکون 

الله تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے- ( اس نے تمہارے لیے تمھاری جنس سے تمھارے لیے بیویاں بنائیں تا کے تم ان کے پاس سکوں حاصل کرو اور تمھرے درمیان محبّت ہو ) 

یہ ایک حقیت ہے کے شادی سے انسان کو سکون حاصل ہوتا ہے انسان بہت سے گناہوں سے بچ جاتا ہے- اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کے شادی شدہ افراد غیر شادی شدہ افراد کی نسبت پچاس فیصد کم بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں- 

ہمارے ہاں شادی دو طریقوں سے ہوتی ہے 

1 : محبّت کی شادی 

2 : خاندان کی طرف سے تے کی گئی شادی 

مغربی ممالک میں زیادہ تر ہر شادی تقریبا پسند اور محبّت کی شادی ہوتی ہے- لیکن وہاں محبّت کی شادیاں زیادہ تر ناکام ثابت ہوتی ہیں- وہاں طلاق کی شرح تقریبا پچاس سے پچہتر فیصد ہے- 

شادی نکام ہونے کی بھی کچھ وجوہات ہوتی ہیں- کیونکہ ہمارے ہاں بھی اور دنیا کے سب ہی ممالک میں محبّت ایک جیسی ہی ہوتی ہے- شادی سے پہلے محبوب اور محبوبہ دونوں جب آپس میں ملتے ہیں تو اپنی شخصیت کا best لے کر ایک دوسرے سے ملتے ہیں- یعنی دونو میں سے کوئی بھی اپنی خامیاں دوسرے پر ظاہر نہیں ہونے دیتا- اس لیے عاشق کو اپنے محبوب سے زیادہ دنیا میں کوئی اور اچھا نظر آتا ہی نہیں- لیکن شادی کے بعد دونوں کے لیے اپنی شخصیت کا اصل پہلو چھپانا مشکل ہو جاتا ہے-  دونوں زیادہ دیر تک اپنی خامیاں چھپا نہیں پاتے اور جیسے ہی عشق کی پٹی  آنکھوں سے اترتی ہے تو محبوب کی چوٹی چوٹی خامیاں بھی بہت نمایاں ہو جاتی ہیں- اور شادی کے چند دیں بعد وہ محبّت میں تعمیر کیا گیا خوابوں کا تاج محل دھڑام سے گر پڑتا ہے اور پھر  آپس میں گزارا کرنا مشکل ہو جاتا ہے-

دوسری طرف وہ شادیاں ہیں جو خاندان کی طرف سے طے کی جاتیں ہیں اور یہ شادیاں بنسبت محبّت کی شادیوں کے زیادہ پاےدار ثابت ہوتی ہیں- لیکن ان ایسی شادیوں کی بھی ایک بہت بری خامی ہے کہ ان لڑکے اور لڑکی کی پسند نہ پسند کا خیال نہیں رکھا جاتا- ( پسند اور محبّت میں فرق ہوتا ہے ) 

جب ہمارا مذہب تو بہت ہی آسان اور پیارا ہے قران اور حدیث دونو میں ارشاد ہے کہ ( نکاح کرو ان سے جو تمہیں پسند آئیں ) 

اسلام میں حکم ہے عورت کی شادی اس کی پسند کے ساتھ کرو جب کہ عورت کا والی بھی رازی ہو- اور تو اور فرمایا گیا ہے کہ نکاح سے پہلے لڑکے اور لڑکی کو ایک دوسرے کو دیکھ لینا کا موقع بھی دو- 

لیکن ہمرے ہاں عجیب منافقت ہے لڑکیاں سارا دن تو بازاروں میں بے پردہ گھومتی رہتی ہیں لیکن جب نکاح کے لیا لڑکا دیکھنے کی خواہس کرتا ہے تو اسے غیر اخلاقی حرکت کا نام دے دیا جاتا ہی- آج کی سائنسی نفسیات بھی اس بات پر متفق ہے کے مرد عورت کو اس کے ظاہری حسن و خوبصورتی سے پسند کرتا ہے جب کہ عورت مرد کی شکل و صورت کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کے معاشرتی مقام کی وجہ سے پسند کرتی ہے- 

اسی لیے قرآن و حدیث میں موجود ہے کہ جب نکاح کرو تو اپنے ہمسری اور برابری کے لوگوں میں کرو ہمارے ہاں طلاق ہونے کی ایک بری وجہ یہ بھی ہے کہ نکاح میں ہمسری اور برابر کے رتبے کا خیال نہیں رکّھا جاتا- 

 شادی کے حوالے سے چند چیزیں ایسی بھی ہیں جن کا بہت کیال رکھا جانا چاہیے- عورت کے لیے شادی کی بہترین عمر 18 سے 25 سال ہے اس عمر میں پیدا ہونے والی ولاد بہت صحت مند ہوتی ہے-

اور مرد کی امر 25 سے 30 کے درمیان ہونی چاہیے عورت کی امر مرد سے لازمی طور پر  پانچ سال تک کم ہونی چاہیے کیونکہ عورت نے اولاد پیدا کرنی ہوتی ہے تو اس کے جسم میں کشش کم ہو جاتی ہے اگر وہ مرد سے چوٹی ہو گی تو اس کے جسم میں کشش دیر تک رہے گی- 

 


No comments:

Post a Comment